عشّاق بھی کیا نِت نئے آزار خریدیں
اک غم کی ضرورت ہو تو بازار خریدیں
آباد ہے شہروں سے تو ویرانہ ہمارا
دو دن کے لیے کیا در و دیوار خریدیں
دستار کو جو ڈھال سمجھتے ہیں وہ سمجھیں
سر جن کو بچانا ہے وہ تلوار خریدیں
گویائی کی قیمت پہ خریدیں تِری آواز
آنکھوں کے عوض ہم تِرا دیدار خریدیں
دِن بھر تو بدن دھوپ میں چُپ چاپ جلائیں
پھر شام ڈھلے سایۂ دیوار خریدیں
اک بھیڑ غلاموں کی وہاں دیکھتی رہ جائے
محشر میں مجھے جب مِرے سرکارؐ خریدیں
مختار! ذرا جیب کی گرمی بھی تو کم ہو
بازار میں آئے ہیں تو کچھ یار، خریدیں
مختار علی
No comments:
Post a Comment