Sunday, 25 September 2022

بلند آہنگ اور پر شور ہو کے گزرے

 بلند آہنگ اور پُر شور ہو کے گزرے

شکست سے انحراف کا زور ہو کے گزرے

بس ایک لمسِ تپش سے بخشی لپک سروں کو

تمہارے نغمات سے بس اک پور ہو کے گزرے

کریہہ موسم،۔ کرخت آوازیں،۔ کالے منظر

خود اپنے جنگل سے ہم بہت بور ہو کے گزرے

وہ جس کی جانب سے سنگِ گلبست آ رہے ہیں

بچے نہیں اس سے، ہم اسی اور ہو کے گزرے

جو لہر اٹھی ہے آسماں چُھونے اس سے کہ دو

ہمارے قریہ سے  نرم، کمزور ہو کے گزرے

ہے کون ایسا جو اس کے جلووں کی تاب لائے

ہے کون جو اس گلی سے چِت چور ہو کے گزرے

بہت سے لمحات ضد تھے اشہر جی دوسروں کے

ہم ان کے ہی درمیان سے ڈور ہو کے گزرے


اشہر ہاشمی

No comments:

Post a Comment