Sunday, 25 September 2022

میں تو کہتی ہوں کہ یہ کام ہی بیہودہ ہے

 میں تو کہتی ہوں کہ یہ کام ہی بیہودہ ہے

دامنِ عشق اگر حِرص سے آلودہ ہے

جو بھی آتا ہے یہاں وہ یہیں کھو جاتا ہے

میرا کوچہ بھی مِرے شہر میں برمودہ ہے

کوئی ماضی نہیں میرا، نہ کوئی مستقبل

میں وجودی ہوں مِرا وقت بھی موجودہ ہے

جو گیا زیرِ زمیں لوٹ کے آتا ہی نہیں

یعنی دوزخ کا مکیں قبر میں آسودہ ہے

لوگ خودکش جسے سمجھے ہیں بنامِ غیرت 

وہ تو مینار سے شہرت کے لیے کودا ہے

فلسفہ ربڑی، زباں شیرہ، سویّاں ہیں خیال

شاعری اپسرا کی ذہن کا فالودہ ہے


اپسرا گل

No comments:

Post a Comment