Saturday, 24 September 2022

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

 قوالی


ہمیں تو لُوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے


نظر میں شوخیاں اور بچپنا شرارت میں

ادائیں دیکھ کے ہم پھنس گئے محبت میں

ہم اپنی جان سے جائیں گے جن کی الفت میں

یقین ہے کہ نہ آئیں گے وہ ہی میت میں

خدا سوال کرے گا اگر قیامت میں

تو ہم بھی کہہ دیں گے ہم لُٹ گئے شرافت میں

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے


وہیں وہیں پہ قیامت ہو، وہ جدھر جائیں

جھکی جھکی ہوئی نظروں سے کام کر جائیں

تڑپتا چھوڑ دے رستے میں اور گزر جائیں

ستم تو یہ ہے کی دل لے لے اور مُکر جائیں

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کِدھر جائیں

یہی ارادہ ہے یہ کہہ کے ہم تو مر جائیں

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے


وفا کے نام پہ مارا ہیں بیوفاؤں نے

کہ دم بھی ہم کو نہ لینے دیا جفاؤں نے

خدا بھلا دیا ان حسن کے خداؤں نے

مٹا کے چھوڑ دیا عشق کی خطاؤں نے

اڑائے ہوش کبھی زلف کی ہواؤں نے

حیا نے ناز نے لوٹا کبھی اداؤں نے

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے


ہزاروں لٹ گئے نظروں کے اک اشارے پر

ہزاروں بہہ گئے طوفان بن کے دھارے پر

نہ ان کے وعدوں کا کچھ ٹھیک ہے نہ باتوں کا

فسانا ہوتا ہے ان کا ہزار راتوں کا

بہت حسیں ہے ویسے تو بھولپن ان کا

بھرا ہوا ہے مگر زہر سے بدن ان کا

یہ جس کو کاٹ لے پانی وہ پی نہیں سکتا

دوا تو کیا ہیں دعا سے بھی جی نہیں سکتا

انہی کے مارے ہوئے ہم بھی ہیں زمانے میں

ہیں چار لفظ محبت کے اس فسانے میں

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے


زمانہ ان کو سمجھتا ہے نیک اور معصوم

مگر یہ کیسے ہیں کیا ہیں کسی کو کیا معلوم

انہں نہ تیر نہ تلوار کی ضرورت ہے

شکار کرنے کو کافی نگاہِ الفت ہے

حسین چال سے دل پائمال کرتے ہیں

نظر سے کرتے ہیں باتیں کمال کرتے ہیں

ہر ایک بات میں مطلب ہزار ہوتے ہیں

یہ سیدھے سادے بڑے ہوشیار ہوتے ہیں

خدا بچائے حسینوں کی تیز چالوں سے

پڑے کسی کا بھی پالا نہ حسن والوں سے

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے


حسن والوں میں محبت کی کمی ہوتی ہے

چاہنے والوں کی تقدیر بری ہوتی ہے

ان کی باتوں میں بناوٹ ہی بناوٹ دیکھی

شرم آنکھوں میں نگاہوں میں لگاوٹ دیکھی

آگ پہلے تو محبت کی لگا دیتے ہیں

اپنے رخسار کا دیوانا بنا دیتے ہیں

دوستی کر کے پھر انجان نظر آتے ہیں

سچ تو یہ ہے کہ بے ایمان نظر آتے ہیں

موت سے کم نہیں دنیا میں محبت ان کی

زندگی ہوتی ہے برباد بدولت ان کی

دن بہاروں کے گزرتے ہیں مگر مر مر کے

لٹ گئے ہم تو حسینوں ہی پہ بھروسہ کر کے

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے


شیون رضوی

No comments:

Post a Comment