Sunday, 25 September 2022

بھری بزم میں گل فشاں اور بھی ہیں

 بھری بزم میں گل فشاں اور بھی ہیں

ہمارے سوا نکتہ داں اور بھی ہیں

یہ دنیا تو مٹ جانے والی ہے، لیکن

زمیں اور بھی، آسماں اور بھی ہیں

یہ دنیا تو اک ذرۂ مختصر ہے

مکیں اور بھی ہیں مکاں اور بھی ہیں

نہ تنہا مِرا کارواں راہ میں ہے

رہِ عشق میں کارواں اور بھی ہیں

نہ ہو مطمئن ایک پتھر ہٹا کر

کہ رستے میں سنگِ گراں اور بھی ہیں

اگر جی لگے آپ کا تو سناؤں

فسانے کئی بر زباں اور بھی ہیں

کہو بجلیوں سے کہ برسیں مسلسل

ابھی باغ میں آشیاں اور بھی ہیں

عروج اپنے گوشے سے باہر تو نکلو

کہ باہر ہزاروں جہاں اور بھی ہیں


احمد عروج قادری

No comments:

Post a Comment