Sunday, 25 September 2022

زخم سینے کا پھر ابھر آیا

 زخم سینے کا پھر ابھر آیا

یاد بھر کوئی چارہ گر آیا

مجھ کو بخشی خدا نے اک بیٹی

چاند آنگن میں اک اتر آیا

خوش نصیبوں کو گھر ملا یارو

میرے حصے میں پھر سفر آیا

تم تغیر کی بات پر ٹھہرے

میں صلیبوں سے بات کر آیا

اپنی تہذیب کو نہیں چھوڑا

یہ بھی الزام میرے سر آیا

اک کلی کھل کے پھول میں بدلی

ایک بھنورا بھی پھول پر آیا

پار اترا افق کے سورج تو

پھر مسافر کو یاد گھر آیا

دوستی دھوپ سے ہی کر لی جب

راہ میں تب گھنا شجر آیا

دل تو شایان ٹوٹنا ہی تھا

اس کا کردار بھی نظر آیا


شایان قریشی

No comments:

Post a Comment