ہو گیا ہے خون ٹھنڈا آگ دو
ایک تازہ ایک زندہ آگ دو
لمحہ لمحہ کانپتا ہے میرا دل
رات کالی خوف گہرا آگ دو
سانس لینا کس قدر دشوار ہے
منجمد ہے میرا سینہ آگ دو
دست و پا کو صبح تک رکھنا ہے گرم
سرد صحرا، سرد خیمہ آگ دو
بادلوں سے آسماں آلود ہے
اور سمندر برف آسا آگ دو
بستیوں نے اوڑھ رکھا ہے کفن
اور یہاں ہر فرد مردہ آگ دو
مجھ میں شاہد! حجرۂ تاریک ہے
جسم و جاں ہیں شمع کشتہ آگ دو
محمود شاہد
No comments:
Post a Comment