Sunday, 25 September 2022

ہو گیا ہے خون ٹھنڈا آگ دو

 ہو گیا ہے خون ٹھنڈا آگ دو

ایک تازہ ایک زندہ آگ دو

لمحہ لمحہ کانپتا ہے میرا دل

رات کالی خوف گہرا آگ دو

سانس لینا کس قدر دشوار ہے

منجمد ہے میرا سینہ آگ دو

دست و پا کو صبح تک رکھنا ہے گرم

سرد صحرا، سرد خیمہ آگ دو

بادلوں سے آسماں آلود ہے

اور سمندر برف آسا آگ دو

بستیوں نے اوڑھ رکھا ہے کفن

اور یہاں ہر فرد مردہ آگ دو

مجھ میں شاہد! حجرۂ تاریک ہے

جسم و جاں ہیں شمع کشتہ آگ دو


محمود شاہد

No comments:

Post a Comment