وہ شوخ انتقام کا خُوگر نہیں رہا
شیشہ گروں کے شہر میں پتھر نہیں رہا
بے اختیاری جلوۂ بت خانہ کی نہ پوچھ
شکرِ خدا، کہ شہر میں آزر نہیں رہا
کیا تیغ ڈگمگاتی تھی قاتل کے ہاتھ میں
اور اس کے آستین میں بھی خنجر نہیں رہا
دشتِ جنوں ہی منزلِ مقصود لے چلے
راہِ وفا میں اب کوئی رہبر نہیں رہا
نادر تُو کیوں سنبھل کے قدم رکھتا ہے یہاں
کیا وہ جنوں سا اب تیرے اندر نہیں رہا
نادر! گزاری عمر یہ جس کی تلاش میں
ساحل کی سیر کر کہ وہ ساغر نہیں رہا
میکس بروس نادر
No comments:
Post a Comment