ردی نہ سمجھ لینا مجھے خواہشِ رد میں
ہاں مجھ کو اڑا سکتے ہو اسراف کی مد میں
بستر پہ پڑے ملتے ہیں ٹکڑے مِرے تن کے
ہر رات میں آ جاتی ہوں اک خواب کی زد میں
ہر موڑ پہ کٹتا ہے مِری زیست کا چالان
رہتی ہی نہیں یہ کبھی رفتار کی حد میں
ہوں عشق کے مکتب سے سند یافتہ لیکن
لکھا گیا ناکام مجھے میری سند میں
تم بونے کے بونے رہے دستار پہن کر
ہے ہِیل پہن کر یہ اضافہ مِرے قد میں
حیران ہوں میں مانگنے والے کے یقیں پر
کہتا ہے؛ مدد کیجیے لوگوں کی مدد میں
اپسرا گل
No comments:
Post a Comment