Saturday 24 September 2022

سفر تھا تھوڑا مگر کتنے موڑ آئے تھے

 سفر تھا تھوڑا مگر کتنے موڑ آئے تھے

کئی کہانیاں ہم ان میں چھوڑ آئے تھے

میں ان پرندوں کو روتا ہوں جو فلک کے لیے

زمیں سے اپنا تعلق ہی توڑ آئے تھے

سوال سُوکھے ہوئے آنسوؤں کا اُلجھا رہا

حساب ویسے تو ہم سارا جوڑ آئے تھے

کوئی ملال ہمیں اب رُلا نہیں سکتا

ہم ایک درد پہ آنکھیں نچوڑ آئے تھے

غُبار چھا گیا ہر چیز پر تو حیرت کیا

دریچے بھی تو کُھلے ہم ہی چھوڑ آئے تھے


وسیم نادر 

No comments:

Post a Comment