Saturday 24 September 2022

بہت مضبوط لوگوں کو بھی غربت توڑ دیتی ہے

 بہت مضبوط لوگوں کو بھی غربت توڑ دیتی ہے

انا کے سب حصاروں کو ضرورت توڑ دیتی ہے

جھکایا جا نہیں سکتا جنہیں جبر و عداوت سے

انہیں بھی اک اشارے میں محبت توڑ دیتی ہے

کسی کے سامنے جب ہاتھ پھیلاتی ہے مجبوری

تو اس مجبور کو اندر سے غیرت توڑ دیتی ہے

ترس کھاتے ہیں جب اپنے سسک اٹھتی ہے خودداری

ہر اک خوددار انساں کو عنایت توڑ دیتی ہے

سمندر پار جا کر جو بہت خوش حال دکھتے ہیں

یہ ان کے دل سے پوچھو کیسے ہجرت توڑ دیتی ہے

نبھانا دل کے رشتوں کو نہیں ہے کھیل بچوں کا

کہ ان شیشوں کو اک ہلکی سی غفلت توڑ دیتی ہے


جاوید نسیمی

No comments:

Post a Comment