Saturday 24 September 2022

دیواروں کا گریہ ہو یا ویرانی کی دھار گرے

 دیواروں کا گریہ ہو یا ویرانی کی دھار گرے 

سارے غم جی اٹھتے ہیں جب بارش کی جھنکار گرے 

پتوں کا گرنا ہے ایسے موسم کی بربادی پر

جیسے میرے ہمسائے میں روز کوئی دیوار گرے

پانی پانی ہو جاتے ہیں آنکھوں میں سارے منظر

دھوپ کی سلطانی میں جیسے بادل کی تلوار گرے

تم نے اپنے سیاروں کو آسمان پر رکھا ہے

ورنہ یہ مجھ بیگانے کی نظروں سے سو بار گرے

ہم نے یونہی عہد کیا ہے ساتھ میں چلتے رہنے کا

پانی میں اک لہر اٹھی اور ہاتھوں سے پتوار گرے

کس کو چُھو کر آیا تھا میں کوہِ ندا کی چوٹی پر

میرے آگے پیچھے سارے آئینہ بردار گرے

اب تو گھر کی بالکنی میں جانے سے گھبراتا ہوں

شاید میرے بوڑھے سر پہ یادوں کا انبار گرے

کیسے لوگ ہیں صدیوں سے بھوکے پیاسے چلتے ہیں

نہ ان کے بچے ڈرتے ہیں، نہ ان کے راہوار گرے


بابر زیدی

No comments:

Post a Comment