دیواروں کا گریہ ہو یا ویرانی کی دھار گرے
سارے غم جی اٹھتے ہیں جب بارش کی جھنکار گرے
پتوں کا گرنا ہے ایسے موسم کی بربادی پر
جیسے میرے ہمسائے میں روز کوئی دیوار گرے
پانی پانی ہو جاتے ہیں آنکھوں میں سارے منظر
دھوپ کی سلطانی میں جیسے بادل کی تلوار گرے
تم نے اپنے سیاروں کو آسمان پر رکھا ہے
ورنہ یہ مجھ بیگانے کی نظروں سے سو بار گرے
ہم نے یونہی عہد کیا ہے ساتھ میں چلتے رہنے کا
پانی میں اک لہر اٹھی اور ہاتھوں سے پتوار گرے
کس کو چُھو کر آیا تھا میں کوہِ ندا کی چوٹی پر
میرے آگے پیچھے سارے آئینہ بردار گرے
اب تو گھر کی بالکنی میں جانے سے گھبراتا ہوں
شاید میرے بوڑھے سر پہ یادوں کا انبار گرے
کیسے لوگ ہیں صدیوں سے بھوکے پیاسے چلتے ہیں
نہ ان کے بچے ڈرتے ہیں، نہ ان کے راہوار گرے
بابر زیدی
No comments:
Post a Comment