Wednesday 21 September 2022

وہ عکس تھی مست بہاروں کا

 خدا حافظ


وہ عکس تھی مست بہاروں کا 

وہ رنگ تھی شوخ نظاروں کا 

وہ نور تھی چاند ستاروں کا  

وہ میری آنکھ کا تارا تھی 

میں جان سے اس کو پیارا تھا 

وہ لَے تھی میرے گیتوں کی 

وہ شعلہ تھی یا شبنم تھی 

کچھ پاگل سی کچھ گُم سُم سی 

مُسکان تھی میرے ہونٹوں کی 

جب راہ میں مجھ سے مل جاتی 

وہ شرم سے آنکھ جُھکا دیتی 

پھر ہاتھ ہوا میں لہرا کر 

وہ چاند کو بھی گہنا دیتی 

اک روز ملی اس حال میں وہ 

نہ آنکھ میں اس کی شوخی تھی 

نہ باتوں میں گہرائی تھی 

کبھی ہنستی تھی کبھی روتی تھی 

غمگین مجھے وہ لگتی تھی 

معمول سے ہٹ کہ اس کی ہنسی 

کچھ بول نہ پائی تھی، لیکن 

اک کاغذ ہاتھ میں تھامے تھی 

اس کاغذ پر یہ لکھا تھا 

اے جانِ خلوص خدا حافظ 

اے جانِ تمنا! رب راکھا


آصف شہزاد

No comments:

Post a Comment