عکسِ جمالِ یار سے جلوہ نما ہیں ہم
کرنوں کی طرح پھیلے ہوئے جا بجا ہیں ہم
ہم سے نظر ملاؤ کہ درد آشنا ہیں ہم
اس دور بے وفا میں سراپا وفا ہیں ہم
ہاتھوں کی ان لکیروں کا قصہ عجیب ہے
پڑھنے کے بعد بھی نہ سمجھ پائے کیا ہیں ہم
کس کو خبر ہے نیتِ واعظ کی مے کشو
کہنے کو اس نے کہہ تو دیا؛ پارسا ہیں ہم
یارو! خطا معاف ہو اس صاف گوئی کی
کہہ دے جو منہ پہ بات وہی آئینہ ہیں ہم
ہم کو تو مسکرانے کی عادت ہے کیا کریں
دنیا سمجھ رہی ہے سکوں آشنا ہیں ہم
سو بار ان کے وعدوں کو جب آزما چکے
اب تک اسی فریب میں کیوں مبتلا ہیں ہم
چمکا تمہارا حسن ہماری نگاہ سے
تم چاند کی طرح ہو تو سورج نما ہیں ہم
شاہد! ہمارے قتل کی مقتل میں دھوم ہے
سنتا ہے کون کس سے کہیں بے خطا ہیں ہم
شاہد بھوپالی
No comments:
Post a Comment