Friday 23 September 2022

یار کے تیر کا نشانہ ہوں

 یار کے تیر کا نشانہ ہوں

اپنے طالع کا میں دِوانا ہوں

ناتوانی بھی دیکھ کر مجھ کو

لگی رونے، میں وہ توانا ہوں

دیکھ دیکھ اس کی زلفِ ابتر کو

دل یہی چاہتا ہے، شانہ ہوں

مُو پریشاں ہے چشم زار و طرار

شجر بید ہی سے مانا ہوں

اس سے چشمِ وفا رکھوں جوشش

میں بھی تیری طرح دِوانا ہوں


جوشش عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment