Friday 23 September 2022

دیکھ اے عرش پر لگی ہوئی آنکھ

 دیکھ اے عرش پر لگی ہوئی آنکھ

تھک گئی تیری سمت اُٹھی ہوئی آنکھ

اب مناظر بدلنے والے ہیں

اب اُدھڑنے لگی ہے سی ہوئی آنکھ

صرف چند ایک رنگ جانتی تھی

دستِ تہذیب کی چُھوئی ہوئی آنکھ

بھلے لحظہ سہی، مگر رُکی ہے

چلو اتنی تو وہ سخی ہوئی آنکھ

عمر گزری ہے اشک چنتے ہوئے

یوں نہیں کاسۂ نمی ہوئی آنکھ

خوف آتا ہے اصل منظر سے

میں نہ کھولوں گا بند کی ہوئی آنکھ

پھر نیا داؤ آزمایا گیا

پھر جلا دی گئی، بُجھی ہوئی آنکھ

دفعتاً اک گمان سچ ہوا، اور

ہر یقیں بُجھ گیا، تہی ہوئی آنکھ


زبیر ارشد

No comments:

Post a Comment