اضطرابِ زندگی سے با خبر ہو جائیے
اپنی ہستی کے لیے خود راہبر ہو جائیے
موسم گل میں کہیں جب گل کوئی لہرا اٹھے
گلستاں میں آپ شاخِ معتبر ہو جائیے
اڑ نہیں سکتے پروں سے جو پرندے آجکل
رہبرانِ وقت ان کے بال و پر ہو جائیے
جی رہے ہیں دہر میں جو گمرہی کی زندگی
آئیے ان کے لیے شمس و قمر ہو جائیے
تپتی راہوں کا مسافر کہ رہا ہے آپ سے
اک گھنیری چھاؤں کا صوفی شجر ہو جائیے
صوفی بستوی
No comments:
Post a Comment