تشریف شبِ وعدہ جو وہ لائے ہوئے ہیں
سر خم ہے نظر نیچی ہے شرمائے ہوئے ہیں
رُخ پر جو سِیہ زُلف کو بِکھرائے ہوئے ہیں
وہ چودھویں کے چاند ہیں گہنائے ہوئے ہیں
پُھولوں سے سوا ہے بدنِ پاک میں خُوشبو
کب عطر لگانے سے وہ اِترائے ہوئے ہیں
حمام میں جانے کے لیے کیا کہیے کوئی
وہ تو عرقِ شرم میں نہلائے ہوئے ہیں
نادر لکھنوی
کلب حسین نادر
No comments:
Post a Comment