Tuesday 20 September 2022

احساس کی رگوں میں اترنے لگا ہے وہ

 احساس کی رگوں میں اُترنے لگا ہے وہ

اب بُوند بُوند مجھ میں بِکھرنے لگا ہے وہ

گُمنامیوں کی اندھی گُپھائیں ہوں نوحہ خواں

مانندِ آفتاب اُبھرنے لگا ہے وہ

کیسے کہوں کہ غم ہوا خوابوں کی بھیڑ میں

زخموں کا اِندمال تو کرنے لگا ہے وہ

اک حرفِ آتشیں بھی نہیں اس کے ہونٹ پر

لگتا ہے لحظہ لحظہ ٹِھٹھرنے لگا ہے وہ

اِمکان کی حدوں سے گُزرنے کے بعد کیوں

اب ریزہ ریزہ ہو کے بِکھرنے لگا ہے وہ

اُترا تھا میری رُوح کے روزن سے جو کبھی

گُھٹ گُھٹ کے میرے جسم میں مرنے لگا ہے وہ


انور مینائی

No comments:

Post a Comment