دل کی دنیا دیکھ کر کیوں رنگِ دنیا دیکھتے
دیکھنے والو! نہیں ہم دیکھ کر کیا دیکھتے
جلوہ گاہِ دل میں آ جاتے وہ بے پردہ اگر
ہم بھی رنگِ بے خودی ہمرنگِ موسیٰ دیکھتے
چودھویں کا چاند ہوتا ہے درخشاں جس طرح
یوں تصور میں کسی کو جگمگاتا دیکھتے
غرق ہو جاتے محبت میں محبت آشنا
ساحل و دریا سے بھی کر کے کنارہ دیکھتے
جذب ہو کر رہ گئے خود ہی نگاہِ برق میں
کیونکر آنکھوں سے نشیمن اپنا جلتا دیکھتے
میں کبھی جلوہ ہوں تیرا، تُو کبھی پرتو مِرا
عمر گزری جا رہی ہے یہ تماشا دیکھتے
ہوتے وہ جلوہ نما گل پیکر و گل پیرہن
ہم انہیں مخمور! فردوس تماشا دیکھتے
مخمور جالندھری
گور بخش سنگھ
No comments:
Post a Comment