Thursday, 22 September 2022

ابھی کچھ اور سانسیں رہ گئی ہیں

ابھی کچھ اور


ابھی کچھ اور سانسیں رہ گئی ہیں

ابھی کچھ اور رسالوں تک مجھے گننا ہے ان کو

ابھی کچھ قرض ہے مجھ پر سبھی کا

ابھی کچھ اور خوشیاں بانٹنی ہیں

ابھی کچھ قہقہوں کو نغمگی خیرات کرنی ہے

گُہر کرنا ہے لفظوں کو

زمین حرف و معنی سے ابھی کچھ خار چُننے ہیں

خیالوں کو دھنک بننا ہے شاید

نئے خوابوں کو صورت بخشنی ہے

ابھی ذروں کو وسعت بخشنی ہے

ہرے موسم سے خوشبو کسب کرنی ہے

لہو دینا ہے سارے زرد پتوں اور پھولوں کو

ہواؤں کو سبک گامی سکھانی ہے

اندھیروں کو ستاروں کو ابھی مشعل دکھانی ہے

ابھی بادل کو بارش دان دینی ہے

چمکتے چاند کو ویران ماتھے پر سجانا ہے

کہیں مہندی کا بوٹا اور کہیں پر نیم اگانا ہے

مِرے اللہ سمجھ میں آ گیا میرے

ابھی کچھ اور دن جینا ہے مجھ کو

ابھی دنیا کو ہے میری ضرورت


رفیعہ شبنم عابدی

No comments:

Post a Comment