ابھی کچھ اور
ابھی کچھ اور سانسیں رہ گئی ہیں
ابھی کچھ اور رسالوں تک مجھے گننا ہے ان کو
ابھی کچھ قرض ہے مجھ پر سبھی کا
ابھی کچھ اور خوشیاں بانٹنی ہیں
ابھی کچھ قہقہوں کو نغمگی خیرات کرنی ہے
گُہر کرنا ہے لفظوں کو
زمین حرف و معنی سے ابھی کچھ خار چُننے ہیں
خیالوں کو دھنک بننا ہے شاید
نئے خوابوں کو صورت بخشنی ہے
ابھی ذروں کو وسعت بخشنی ہے
ہرے موسم سے خوشبو کسب کرنی ہے
لہو دینا ہے سارے زرد پتوں اور پھولوں کو
ہواؤں کو سبک گامی سکھانی ہے
اندھیروں کو ستاروں کو ابھی مشعل دکھانی ہے
ابھی بادل کو بارش دان دینی ہے
چمکتے چاند کو ویران ماتھے پر سجانا ہے
کہیں مہندی کا بوٹا اور کہیں پر نیم اگانا ہے
مِرے اللہ سمجھ میں آ گیا میرے
ابھی کچھ اور دن جینا ہے مجھ کو
ابھی دنیا کو ہے میری ضرورت
رفیعہ شبنم عابدی
No comments:
Post a Comment