دلوں سے درد، دعا سے اثر نکلتا ہے
یہ کس بہشت کی جانب بشر نکلتا ہے
پڑا ہے شہر میں چاندی کے برتنوں کا رواج
سو اس عذاب سے اب کوزہ گر نکلتا ہے
میاں! یہ چادرِ شہرت تم اپنے پاس رکھو
کہ اس سے پاؤں جو ڈھانپیں تو سر نکلتا ہے
خیالِ گردشِ دوراں ہو کیا اسے کہ جو شخص
گِرہ میں ماں کی دعا باندھ کر نکلتا ہے
میں سنگِ میل ہوں پتھر نہیں ہوں رستے کا
سو کیوں زمانہ مجھے روند کر نکلتا ہے
مِرے سخن پہ تو دادِ سخن نہیں دیتا
تِری طرف مِرا قرضِ ہنر نکلتا ہے
سخنورانِ قد آور میں تیرا قد مختار
عجب نہیں ہے جو بالشت بھر نکلتا ہے
مختار علی
No comments:
Post a Comment