Friday, 23 September 2022

زمین عشق پہ اے ابر اعتبار برس

 زمینِ عشق پہ اے ابرِ اعتبار برس

وصالِ یار کا بہہ جائے انتظار برس

شرابِ شوق کہیں مجھ کو کر نہ دے مدہوش

تِری تری سے اتر جائے یہ خمار برس

مِرے حبیب کو دے دوں وفا کا اک موتی

کھلا ہے دل کا صدف، آ بس ایک بار برس

پئے نمود نہ گرمی ہے عشق کی نہ ہوا

درخت زیست کے ہیں خشک برگ و بار برس

کہیں نجات کا دریا نہ سوکھنے لگ جائے

چلا کرے مِری کشتی کا کاروبار برس

زمین دل میں اگی ہے انا کی فصل نئی

تباہ کر دے، دیا میں نے اختیار، برس

کہیں انہیں نہ ہو خندہ لبی پہ وہم و گماں

دکھا دے بےکسی اے چشمِ بے قرار برس

وہ ایک پل جو تِرے اشتیاق میں گزرا

اس ایک پل میں سمٹ آئے ہیں ہزار برس

تِرے برسنے سے پانی ہے قلب دشمن کا

عمل یہ نیک ہے تمجید بار بار برس


تمجید حیدر

No comments:

Post a Comment