دل و نظر میں تِرے روپ کو بساتا ہوا
تِری گلی سے گزرتا ہوں جگمگاتا ہوا
غزل کے پھول مِرے ذہن میں مہکتے ہوئے
تِرا خیال مجھے رات بھر جگاتا ہوا
وہ بارگاہِ ادب ہے عقیدتوں کی جگہ
میں اس گلی سے کیوں گزروں گا خاک اڑاتا ہوا
مِرے جنوں سے حریفوں کے پاؤں اکھڑتے ہوئے
میں جان دینے کے چکر میں جاں بچاتا ہوا
کسے ملا تِرے قدموں میں جان دے دینا
میں سرخرو ہوا چاہت کے کام آتا ہوا
تمہاری یاد مجھے اس طرح سے لگتی ہے
کوئی چراغ اندھیرے میں جھلملاتا ہوا
ہتھیلیوں کی لکیریں مجھے پرکھتی ہوئیں
میں ہر قدم پہ مقدر کو آزماتا ہوا
مِرے خلاف سبھی سازشیں رچیں جس نے
وہ رو رہا ہے مِری داستاں سناتا ہوا
ہماری سمت لگاتار وار ہوتے ہوئے
اسے بچانے میں اکثر میں چوٹ کھاتا ہوا
ارشاد سکندر
No comments:
Post a Comment