Thursday 22 September 2022

وفا کی راہ میں گل ہی نہیں ہے خار بھی ہے

 وفا کی راہ میں گل ہی نہیں ہے خار بھی ہے

یہ جرم وہ ہے کہ پاداش اس کی دار بھی ہے

سنبھل کے آ مرے ہمدم کہ راہ عشق و وفا

مقام سجدہ بھی میدان کارزار بھی ہے

مرے خدا تری رحمت کی آس رکھتا ہے

ترا یہ بندہ کہ خاطی بھی شرمسار بھی ہے

خزاں کا دور ہے گھبرا نہ بلبل غمگیں

خزاں کے بعد ہی پھر موسم بہار بھی ہے

وہ وقت دور نہیں ہے کہ پھر تو چہکے گا

کہ خار زار میں پوشیدہ لالہ زار بھی ہے

نشے میں مست ہیں جو لوگ وہ بھی یہ سن لیں

نشے کے بعد ہی اعضا شکن خمار بھی ہے

یہ کاروبار محبت بھی کیا بلا ہے عروجؔ

یقیں ہے وعدہ خلافی کا انتظار بھی ہے


احمد عروج قادری

No comments:

Post a Comment