وفا کی راہ میں گل ہی نہیں ہے خار بھی ہے
یہ جرم وہ ہے کہ پاداش اس کی دار بھی ہے
سنبھل کے آ مرے ہمدم کہ راہ عشق و وفا
مقام سجدہ بھی میدان کارزار بھی ہے
مرے خدا تری رحمت کی آس رکھتا ہے
ترا یہ بندہ کہ خاطی بھی شرمسار بھی ہے
خزاں کا دور ہے گھبرا نہ بلبل غمگیں
خزاں کے بعد ہی پھر موسم بہار بھی ہے
وہ وقت دور نہیں ہے کہ پھر تو چہکے گا
کہ خار زار میں پوشیدہ لالہ زار بھی ہے
نشے میں مست ہیں جو لوگ وہ بھی یہ سن لیں
نشے کے بعد ہی اعضا شکن خمار بھی ہے
یہ کاروبار محبت بھی کیا بلا ہے عروجؔ
یقیں ہے وعدہ خلافی کا انتظار بھی ہے
احمد عروج قادری
No comments:
Post a Comment