پلکوں پہ بٹھا مجھ کو یا آنکھوں سے گرا دے
میں تیرا گنہ گار ہوں جو چاہے سزا دے
سہما ہوا رہتا ہے عجب خوف سے اب تو
اس دل کی پریشانی مجھے کوئی بتا دے
وہ آنکھ جو خوابوں کا چمن زار تھی پہلے
اب نیند سے بیزار ہے اک خواب نیا دے
بے کار خیالوں کی اذیت ہے عجب سی
کچھ ایسی دوا دے کہ مِرے ہوش بھلا دے
معلوم نہیں کون یہاں دوست ہے اب تو
میں جس کا چہیتا ہوں ذرا ہاتھ ہلا دے
رس گھول مرے کان میں اے صبح کی بلبل
اس شب کے مسافر میں نئی روح جگا دے
اب لوگ بدل جاتے ہیں موسم کی ادا سے
منہ موڑ کے جانا ہے تو پہلے ہی بتا دے
علی ساحر
No comments:
Post a Comment