Wednesday, 21 September 2022

پلکوں پہ بٹھا مجھ کو یا آنکھوں سے گرا دے

پلکوں پہ بٹھا مجھ کو یا آنکھوں سے گرا دے

میں تیرا گنہ گار ہوں جو چاہے سزا دے

سہما ہوا رہتا ہے عجب خوف سے اب تو

اس دل کی پریشانی مجھے کوئی بتا دے

وہ آنکھ جو خوابوں کا چمن زار تھی پہلے

اب نیند سے بیزار ہے اک خواب نیا دے

بے کار خیالوں کی اذیت ہے عجب سی

کچھ ایسی دوا دے کہ مِرے ہوش بھلا دے

معلوم نہیں کون یہاں دوست ہے اب تو

میں جس کا چہیتا ہوں ذرا ہاتھ ہلا دے

رس گھول مرے کان میں اے صبح کی بلبل

اس شب کے مسافر میں نئی روح جگا دے

اب لوگ بدل جاتے ہیں موسم کی ادا سے

منہ موڑ کے جانا ہے تو پہلے ہی بتا دے


علی ساحر

No comments:

Post a Comment