Friday 23 September 2022

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

کچھ نہیں سُوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے

چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم

مجھ کو جُھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

دستگیری میری تنہائی کی تُو نے ہی تو کی

میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

لوگ کہتے ہیں سایہ تیرےﷺ پیکر کا نہ تھا

میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

تُو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے

مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا

میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں

لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا

میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سُو دیکھیں

صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا

وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں

جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا

ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں

ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا

شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو

نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا

اب بھی ظلمات فروشوں کو گِلہ ہے تجھ سے

رات باقی تھی کہ سُورج نکل آیا تیرا

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی

اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ

راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا


احمد ندیم قاسمی

No comments:

Post a Comment