بادباں جب بھی سرِ موجِ رواں کھولتے ہیں
غیظ میں آئے سمندر کے بھنور بولتے ہیں
پھیلتا جاتا ہے ہر سمت دھنک رنگ طلسم
چاندنی رات میں جب ساتواں در کھولتے ہیں
ہاں بچا لیتی ہے اس بوسے کی تریاقی ہی
تلخئ زہر رگِ جاں میں جو ہم گھولتے ہیں
رنج و غم سینچ کے نکلے ہوئے موسم پھر سے
میری پلکوں کے کناروں پہ کھڑے ڈولتے ہیں
فطرت سوہان
No comments:
Post a Comment