آپ کے قرب میں جان جاں سارے موسم سہانے لگے
زیست مشکل ہوئی جس گھڑی چھوڑ کر آپ جانے لگے
مے کدہ اور یہ جام و سبو تھے بھلا کب مری جستجو
مرہمِ عشق درکار تھا ہم بھی پینے پلانے لگے
موت کی انت ہچکی تلک بھول پائے نہ ہم آپ کو
دکھ مگر ہے مجھے آپکو سارے جھوٹے فسانے لگے
ہائے تیری جدائی کا غم، لمحے مجھ کو زمانے لگے
چھوڑ کر جا چکا ہوتا ہے روکنا اس کو بے سود ہے
جانے والے کو تم جانے دو ہاتھ جب وہ چھڑانے لگے
صورتِ دلنشیں ہے عجب اس کی طینت ہے سب سے الگ
ماں نے چہرے میں سب پڑھ لیا اشک جب ہم چھپانے لگے
چھین پایا نہ مجھ سے علی گرچہ کوشش زمانے نے کی
تیر، تلوار، دار و رسن، جسم پر تازیانے لگے
فقر کی نہج پر دنیا سے بے خبر ہم ہیں آشفتہ سر
راہئ راہِ عرفان ہیں ظاہرا ہم دیوانے لگے
بے گھری کا جو طعنہ ملا آج عرفان دل پر لگا
آج شہرِ خموشاں میں ہم اپنی بستی بسانے لگے
عرفان حیدر
No comments:
Post a Comment