Thursday 22 September 2022

آپ کے قرب میں جان جاں سارے موسم سہانے لگے

 آپ کے قرب میں جان جاں سارے موسم سہانے لگے 

زیست مشکل ہوئی جس گھڑی چھوڑ کر آپ جانے لگے

مے کدہ اور یہ جام و سبو تھے بھلا کب مری جستجو

مرہمِ عشق درکار تھا ہم بھی پینے پلانے لگے 

موت کی انت ہچکی تلک بھول پائے نہ ہم آپ کو

دکھ مگر ہے مجھے آپکو سارے جھوٹے فسانے لگے

 ایک شامِ الم ایک ہم بڑھتی تنہائی ہے ہم قدم

ہائے تیری جدائی کا غم، لمحے مجھ کو زمانے لگے 

چھوڑ کر جا چکا ہوتا ہے روکنا اس کو بے سود ہے

جانے والے کو تم جانے دو ہاتھ جب وہ چھڑانے لگے

صورتِ دلنشیں ہے عجب اس کی طینت ہے سب سے الگ

 ماں نے چہرے میں سب پڑھ لیا اشک جب ہم چھپانے لگے

چھین پایا نہ مجھ سے علی گرچہ کوشش زمانے نے کی 

تیر، تلوار، دار و رسن، جسم پر تازیانے لگے

فقر کی نہج پر دنیا سے بے خبر ہم ہیں آشفتہ سر 

راہئ راہِ عرفان ہیں ظاہرا  ہم دیوانے لگے

بے گھری کا جو طعنہ ملا آج عرفان دل پر لگا

آج شہرِ خموشاں میں  ہم اپنی بستی بسانے لگے


عرفان حیدر

No comments:

Post a Comment