Tuesday 20 September 2022

گھٹا زلفوں کی جب سے اور کالی ہوتی جاتی ہے

 گھٹا زُلفوں کی جب سے اور کالی ہوتی جاتی ہے

رُخِ روشن کی تابانی مثالی ہوتی جاتی ہے

مِرے بختِ سیہ کے حاشیے پر روشنی سی ہے

مِری تاریک شب کچھ پھر اُجالی ہوتی جاتی ہے

اُٹھے جاتے ہیں دیدہ ور سبھی آہستہ آہستہ

یہ دنیا معتبر لوگوں سے خالی ہوتی جاتی ہے

وہ میری انجمن پر رنگ برساتے ہیں کچھ ایسا

کہ ہر گوشے کی اک اک شے نرالی ہوتی جاتی ہے

عتیق! اس دلربا کی ہر ادا بر حق سہی، لیکن

تمہاری کوشش پیہم بھی عالی ہوتی جاتی ہے


عتیق اثر

No comments:

Post a Comment