Wednesday, 21 September 2022

ذہن کی عمارت میں یاد اک دریچہ ہے

یاد اک دریچہ ہے


ذہن کی عمارت میں

یاد اک دریچہ ہے

اور اس دریچے کے

گرد دور تک پھیلا

وقت کا سمندر ہے

وقت کے سمندر میں

دن مہینے لہریں ہیں

تُند و تیز لہروں پر

تیرتے ہوئے لمحے

خوش گلو پرندے ہی

یاد اک دریچہ ہے

جب کبھی اکیلے میں

دل اداس ہوتا ہے

ہم اسی دریچے سے

پار جھانک لیتے ہیں

وقت کے سمندر میں

خوشگوار لمحوں کی

رنگا رنگ تصویریں

جاندار لگتی ہیں

شاندار لگتی ہیں

اور زندہ رہنے کا

اک جواز بنتی ہیں


علی اصغر عباس 

No comments:

Post a Comment