یاد اک دریچہ ہے
ذہن کی عمارت میں
یاد اک دریچہ ہے
اور اس دریچے کے
گرد دور تک پھیلا
وقت کا سمندر ہے
وقت کے سمندر میں
دن مہینے لہریں ہیں
تُند و تیز لہروں پر
تیرتے ہوئے لمحے
خوش گلو پرندے ہی
یاد اک دریچہ ہے
جب کبھی اکیلے میں
دل اداس ہوتا ہے
ہم اسی دریچے سے
پار جھانک لیتے ہیں
وقت کے سمندر میں
خوشگوار لمحوں کی
رنگا رنگ تصویریں
جاندار لگتی ہیں
شاندار لگتی ہیں
اور زندہ رہنے کا
اک جواز بنتی ہیں
علی اصغر عباس
No comments:
Post a Comment