وسعتِ کون و مکاں میں وہ سماتے بھی نہیں
جلوہ افروز بھی، ہیں سامنے آتے بھی نہیں
پارسائی کا ہماری نہیں دنیا میں جواب
وقت آ جائے تو دامن کو بچاتے بھی نہیں
ہم وہ میکش ہیں کی ساقی کی نظر پھرتے ہی
جام کی سمت نگاہوں کو اٹھاتے بھی نہیں
خود ہی رنگِ رخِ محبوب اڑا جاتا ہے
ہم تو رودادِ غمِ عشق سناتے بھی نہیں
بوئے گل جن کا کیا کرتی تھی رہ رہ کے طواف
اب چمن میں وہ نشیمن نظر آتے بھی نہیں
ہم وہ بربادِ محبت ہیں، خدا شاہد ہے
آگ دل میں جو لگی ہو تو بجھاتے بھی نہیں
وقت نازک ہے یہ کیا سوچ رہے ہو شاعر
ایسی ظلمت میں کوئی شمع جلاتے بھی نہیں
شاعر فتحپوری
No comments:
Post a Comment