Thursday, 22 September 2022

مسافروں کو تھکن گام گام ہوتی ہے

 مسافروں کو تھکن گام گام ہوتی ہے

کرو قیام کہ ہمت تمام ہوتی ہے

ہماری سمت بتا اے مِرے ستارہ شناس

کہ ایک دن میں کئی بار شام ہوتی

پلک جھپکنا گنہگار کر رہا ہے مجھے

وہ اس وثوق سے محوِ کلام ہوتی

کچھ اور دم میں مٹا دے گی خال و خد میرے

ہوائے دشت کہاں خوش خرام ہوتی ہے

شکست خوردہ ہجومِ عدو کو سہل نہ جان

ہر ایک دل میں صفِ انتقام ہوتی ہے

کمیل! سایۂ دامانِ شہ میں آ جاؤ

کہ زندگی کی غزل اختتام ہوتی ہے


کمیل کاظمی

No comments:

Post a Comment