مسافروں کو تھکن گام گام ہوتی ہے
کرو قیام کہ ہمت تمام ہوتی ہے
ہماری سمت بتا اے مِرے ستارہ شناس
کہ ایک دن میں کئی بار شام ہوتی
پلک جھپکنا گنہگار کر رہا ہے مجھے
وہ اس وثوق سے محوِ کلام ہوتی
کچھ اور دم میں مٹا دے گی خال و خد میرے
ہوائے دشت کہاں خوش خرام ہوتی ہے
شکست خوردہ ہجومِ عدو کو سہل نہ جان
ہر ایک دل میں صفِ انتقام ہوتی ہے
کمیل! سایۂ دامانِ شہ میں آ جاؤ
کہ زندگی کی غزل اختتام ہوتی ہے
کمیل کاظمی
No comments:
Post a Comment