Friday, 23 September 2022

خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی

 خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی

سامنے اک کوزہ گر کے چاک پر ہیں آج بھی

یہ نہ جانا کس طرف سے آئی چنگاری مگر

تہمتیں ساری خس و خاشاک پر ہیں آج بھی

جس تکبر کی بدولت چھن گئے ان کے حقوق

اس کے اثراتِ رعونت ناک پر ہیں آج بھی

میں نے رتی بھر نظامِ فکر کو بدلا نہیں

منحصر افکار سب ادراک پر ہیں آج بھی

جو ازل سے ہیں سفیر عریانیت کے ان کے بھی

زاویے سب سوچ کے پوشاک پر ہیں آج بھی

میرا چہرہ جیسا تھا ویسا دکھایا اے ضمیر

سب یقین آئینۂ بے باک پر ہیں آج بھی


ضمیر اترولوی

No comments:

Post a Comment