ہم نے اک عمر گزاری جسے پانے کے لیے
وہ کہیں خود کو بدل دے نہ زمانے کے لیے
اس کی بیمارئ دل کی ہے جہاں میں افواہ
یہ تماشہ ہے فقط مجھ کو بلانے کے لیے
آج رخصت کے لیے پیش کیا ہے اس نے
جو بہانہ تھا کبھی ملنے ملانے کے لیے
آپ ملتے ہی خفا ہو کے چلے جاتے ہیں
کون کہتا ہے بھلا آپ کو آنے کے لیے
تیرے رخسار کو رنگنے کا بہانہ ہولی
عید کرتے ہیں گلے تجھ کو لگانے کے لیے
ہم نے بے لوث محبت کی تمنا کی تھی
پیار عدنان کیا اس نے جتانے کے لیے
عدنان خالد شریف
No comments:
Post a Comment