لہو نچوڑتی خبریں
اب دعائیں مانگتے ہوئے ڈر لگتا ہے
دہشت، امن کے صحیفوں سے نکال کر پھیلائی جا رہی ہے
ایمان خطرے میں ہے
اب محمود و ایاز کا ایک صف میں کھڑے رہنا ٹھیک نہیں
مفتیوں کا ایک دوسرے کو کافر کہے بغیر
مسلمان رہنا ممکن نہیں رہا
جُبہ و دستار میں ڈھکے ہوئے پارسا
اِن باکس میں لڑکیوں کے کپڑے اتارتے ہیں
اور سٹیٹس میں عورت کو شرم و حیا کا زیور پہنا کر
نکیل سے کھینچا جاتا ہے
حُجرے میں تعلیم کی دھجیاں بکھرتی رہتی ہیں
جنت فروش، بارود سے بھری ہوئی جیکٹ کے ساتھ
ہمبستری کرنے کا نسخہ مفت تقسیم کرتے ہیں
حوروں کے جسمانی فضائل کا نقشہ کھینچ کر
شوقِ شہادت کو فروغ دیا جاتا ہے
دودھ کی نہروں میں نہانے کا مقدس شوق
شہروں کو خون میں نہلا دیتا ہے
ایٹم بم ہمارا منہ چِڑاتا ہے
دنیا ابھی ناگاساکی اور ہیروشیما کا دُکھ نہیں بھولی
اور ہم چاغی میں تابکاری پھیلانے کے بعد
یومِ تکبیر مناتے ہیں
مینڈھے کے رنگ اور سینگوں کی بناوٹ پر
ہونے والے روحانی مباحث
چوراہے میں آگ اُگلتے ہیں
من و سلویٰ کی ضیافت ٹھنڈی پڑ چکی ہے
خدا بندوں کی ضرورتیں پوری کرتے کرتے عاجز آ چکا ہے
رحمت کے طلبگار سٹاک ایکسچینج میں سٹہ کھیلتے ہیں
سجدے میں گرتے ہوئے نیکوکار کی توند
پیشانی سے پہلے زمین پر رگڑ کھاتی ہے
شکم میں بھڑکتی ہوئی آگ دیوتا بن جائے
تو محراب ماتھے کی بجائے
پیٹ پر ظاہر ہوتا ہے
انصاف طلب کرتا ہوا ہجوم
سڑکوں پر رقص کرتا ہے
ایمبولینس کے ہُوٹر کی آواز
نعروں کے شور میں دم توڑ دیتی ہے
بچے سکول جانے سے ڈرتے ہیں
مائیں لوریاں سنانا بھول چکی ہیں
ہوا سانس نہیں لینے دیتی
درختوں کی سبز شاخوں سے خاردار تاریں گزرتی ہیں
مقصود وفا
No comments:
Post a Comment