Sunday 26 April 2020

مری ہستی کا جلووں میں ترے روپوش ہو جانا

مِری ہستی کا جلووں میں تِرے روپوش ہو جانا
یہیں تو ہے بس اک قطرہ کا دریا نوش ہو جانا
تمہیں کیا غم، مبارک ہو تمہیں روپوش ہو جانا
ہُوا جاتا ہے افسانہ مِرا بے ہوش ہو جانا
یہ اچھی ابتدا کی آپ نے اے حضرتِ موسیٰ
دمِ دیدار اب لازم ہُوا بے ہوش ہو جانا
وہی سمجھے ہیں کچھ کچھ زندگی و موت کا حاصل
جنہیں آتا ہے جیتے جی کفن بر دوش ہو جانا
زمیں کا ذرہ ذرہ آئینہ دار حقیقت ہے
کہیں اپنے ہی جلووں میں نہ تم روپوش ہو جانا
بساطِ دہر میں غافل بھلا جینے کا حاصل کیا
کہ مرنا بھی جہاں پر ہو وبالِ دوش ہو جانا
وہ سر زانو پہ ان کے، وہ ہوا زلفِ معنبر کی
ہمیں تو ہوش سے بڑھ کر ہے یوں بے ہوش ہو جانا
نظر آتے ہیں اب جلوے ہی جلوے ہر طرف مجھ کو
دلیلِ ہوشیاری تھا مِرا بے ہوش ہو جانا
وہ اٹھنا جلوہ گاہِ ناز کے پردے کا نظروں سے
وہ میرا دیکھتے ہی دیکھتے بے ہوش ہو جانا
گزر جا منزلِ احساس کی حد سے بھی اے افقؔر
کمالِ بے خودی ہے بے نیازِ ہوش ہو جانا

افقر موہانی وارثی

No comments:

Post a Comment