چھوڑ جانے کی وہ جرأت بھی نہیں کر سکتا
بوڑھی رسموں سے بغاوت بھی نہیں کر سکتا
تو مِری جاں ہے مگر، ہے تو طوائف ہی ناں
میں تِری کھل کے حمایت بھی نہیں کر سکتا
وہ جسے پوجتے اک عمر گزاری ہم نے
دل جو بچہ تھا بہت شوخ ، تِرے جانے پر
ایسے سہما ہے شرارت بھی نہیں کر سکتا
عشق کرنے کا مجھے کہتی ہے سمجھاؤ اسے
مجھ سا مزدور محبت بھی نہیں کر سکتا
میری میت پہ کہاں وقت سے وہ پہنچے گا
جو کہ بر وقت عیادت بھی نہیں کر سکتا
آخری عمر میں مفلوج ہوا باپ ہوں میں
اپنے بچوں کو نصیحت بھی نہیں کر سکتا
حسیب الحسن
No comments:
Post a Comment