Tuesday 21 April 2020

چھوڑ جانے کی وہ جرأت بھی نہیں کر سکتا

چھوڑ جانے کی وہ جرأت بھی نہیں کر سکتا
بوڑھی رسموں سے بغاوت بھی نہیں کر سکتا
تو مِری جاں ہے مگر، ہے تو طوائف ہی ناں
میں تِری کھل کے حمایت بھی نہیں کر سکتا
وہ جسے پوجتے اک عمر گزاری ہم نے
کیا وہ اک بار عنایت بھی نہیں کر سکتا
دل جو بچہ تھا بہت شوخ ، تِرے جانے پر
ایسے سہما ہے شرارت بھی نہیں کر سکتا
عشق کرنے کا مجھے کہتی ہے سمجھاؤ اسے
مجھ سا مزدور محبت بھی نہیں کر سکتا
میری میت پہ کہاں وقت سے وہ پہنچے گا
جو کہ بر وقت عیادت بھی نہیں کر سکتا
آخری عمر میں مفلوج ہوا باپ ہوں میں
اپنے بچوں کو نصیحت بھی نہیں کر سکتا

حسیب الحسن

No comments:

Post a Comment