Thursday 28 September 2017

بدن پہ زخم سجائے لہو لبادہ کیا

بدن پہ زخم سجائے لہو لبادہ کیا 
ہر ایک سنگ سے یوں ہم نے استفادہ کیا 
ہے یوں کہ کچھ تو بغاوت سرشت ہم بھی ہیں 
ستم بھی اس نے ضرورت سے کچھ زیادہ کیا 
ہمیں تو موت بھی دے کوئی کب گوارا تھا 
یہ اپنا قتل تو بالقصد بالارادہ کیا 
بس ایک جان بچی تھی چھڑک دی راہوں پر 
دل غریب نے اک اہتمام سادہ کیا 
جو جس جگہ کے تھا قابل اسے وہیں رکھا 
نہ زیادہ کم کیا ہم نے، نہ کم زیادہ کیا 
بچا لیا ہے جو سر اپنا سخت نادم ہیں 
مگر یہ اپنا تحفظ تو بے ارادہ کیا 
نہ لوٹنے کا ہے رستہ نہ ٹھہرنے کی ہے جا 
کدھر کا آج جنوں نے مِرے ارادہ کیا

بلقیس ظفیرالحسن

No comments:

Post a Comment