Friday 22 September 2017

رکھتے ہیں دشمنی بھی جتاتے ہیں پیار بھی

رکھتے ہیں دشمنی بھی جتاتے ہیں پیار بھی 
ہیں کیسے غم گسار مِرے غم گسار بھی 
افسردگی بھی رخ پہ ہے ان کے نکھار بھی 
ہے آج گلستاں میں خزاں بھی بہار بھی 
پیتا ہوں میں شرابِ محبت تو کیا ہوا 
پیتا ہے یہ شراب تو پروردگار بھی 
ملنے کی ہے خوشی تو بچھڑنے کا ہے ملال 
دل مطمئن بھی آپ سے ہے، بے قرار بھی 
آ کر وہ میری لاش پہ یہ کہہ کے رو دیے 
تم سے ہوا نہ آج مِرا انتظار بھی 
اے دوست بعد مرگ بھی میں ہوں شکستہ حال 
دل کی طرح سے ٹوٹا ہوا ہے مزار بھی 
پرنمؔ یہ سب کرم ہے قمر کا جو آج کل 
ہوتا ہے اہل فن میں تمہارا شمار بھی 

پرنم الہ آبادی

No comments:

Post a Comment