Sunday, 24 September 2017

میں یوں تو نہیں ہے کہ محبت میں نہیں تھا

میں یوں تو نہیں ہے کہ محبت میں نہیں تھا 
البتہ کبھی اتنی مصیبت میں نہیں تھا 
اسباب تو پیدا بھی ہوئے تھے مگر اب کے 
اس شوخ سے ملنا مِری قسمت میں نہیں تھا 
طے میں نے کیا دن کا سفر جس کی ہوس میں 
دیکھا تو وہی رات کی دعوت میں نہیں تھا 
اک لہر تھی غائب تھی جو طوفان‌ِ ہوا سے 
اک لفظ تھا جو خط کی عبارت میں نہیں تھا 
کیفیتیں ساری تھیں فقط ہجر تک اس کے 
میں سامنے آ کر کسی حالت میں نہیں تھا 
لغزش ہوئی کچھ مجھ سے بھی طغیانِ طلب میں 
کچھ وہ بھی ظفرؔ اپنی طبیعت میں نہیں تھا  

احمد ظفر

No comments:

Post a Comment