Wednesday 6 September 2017

کب یاروں کو تسلیم نہیں کب کوئی عدو انکاری ہے

ترانہ

کب یاروں کو تسلیم نہیں کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے
جب سازِ سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
جب پرچمِ جاں لے کر نکلے ہم خاک نشیں مقتل مقتل
اُس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت طاری ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی پر اُن کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
کس زعم میں تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہ تھا
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment