ترانہ
کب یاروں کو تسلیم نہیں کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے
جب سازِ سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
جب پرچمِ جاں لے کر نکلے ہم خاک نشیں مقتل مقتل
اُس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت طاری ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی پر اُن کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
کس زعم میں تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہ تھا
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment