یہ کہہ کے آگ وہ دل میں لگائے جاتے ہیں
چراغ خود نہیں جلتے، جلائے جاتے ہیں
اب اس سے بڑھ کے ستم دوستوں پہ کیا ہو گا
وہ دشمنوں کو گلے سے لگائے جاتے ہیں
غریبی جرم ہے ایسا کہ دیکھ کر مجھ کو
کشش چراغ کی یہ بات کر گئی روشن
پتنگے خود نہیں آتے بلائے جاتے ہیں
تجلیوں کے حجابات ہیں خیال رہے
یہ پردے دستِ نظر سے اٹھائے جاتے ہیں
ہمیں ملی ہے جگہ جب سے آپ کے دل میں
جہاں ہیں آپ وہاں ہم بھی پائے جاتے ہیں
نہ پوچھ حالِ شبِ غم نہ پوچھ اے پرنمؔ
بہائے جاتے ہیں آنسو بہائے جاتے ہیں
پرنم الہ آبادی
No comments:
Post a Comment