Sunday 24 September 2017

کیا پتا کس جرم کی کس کو سزا دیتا ہوں میں

کیا پتا کس جرم کی کس کو سزا دیتا ہوں میں 
رنگ سا اک باندھتا ہوں، پھر بھلا دیتا ہوں میں 
اپنے آگے اب تو میں خود بھی ٹھہر سکتا نہیں 
سامنا ہوتے ہی چٹکی میں اڑا دیتا ہوں میں 
معجزہ اگلا تو اب شاید پرانا ہو چلا 
دیکھنا اب کے کوئی چکر نیا دیتا ہوں میں 
مجھ سے آگے بھی نکل جانا بہت مشکل نہیں 
آج کل آہستہ رو ہوں، راستہ دیتا ہوں میں 
شور سا اٹھتا ہے اور اٹھتے ہی دب جاتا ہے اب 
حرف سا لکھنے سے پہلے ہی مٹا دیتا ہوں میں 
تاکہ میری صلح جوئی کو لگے کچھ بھاؤ بھی 
ہر نئے فتنے کو در پردہ ہوا دیتا ہوں میں 
بات بھی سنتا نہیں ہوں وصل میں دل کی ظفرؔ 
ایسے خر‌مستوں کو محفل سے اٹھا دیتا ہوں میں 

احمد ظفر

No comments:

Post a Comment