کیا پتا کس جرم کی کس کو سزا دیتا ہوں میں
رنگ سا اک باندھتا ہوں، پھر بھلا دیتا ہوں میں
اپنے آگے اب تو میں خود بھی ٹھہر سکتا نہیں
سامنا ہوتے ہی چٹکی میں اڑا دیتا ہوں میں
معجزہ اگلا تو اب شاید پرانا ہو چلا
مجھ سے آگے بھی نکل جانا بہت مشکل نہیں
آج کل آہستہ رو ہوں، راستہ دیتا ہوں میں
شور سا اٹھتا ہے اور اٹھتے ہی دب جاتا ہے اب
حرف سا لکھنے سے پہلے ہی مٹا دیتا ہوں میں
تاکہ میری صلح جوئی کو لگے کچھ بھاؤ بھی
ہر نئے فتنے کو در پردہ ہوا دیتا ہوں میں
بات بھی سنتا نہیں ہوں وصل میں دل کی ظفرؔ
ایسے خرمستوں کو محفل سے اٹھا دیتا ہوں میں
احمد ظفر
No comments:
Post a Comment