Friday, 22 September 2017

دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا

دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا 
یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا 
کمسن ہیں وہ ایسے انہیں ظالم کہوں کیسے 
معصوم پہ الزام لگایا نہیں جاتا 
آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رُخ نے 
آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا 
کیا چھیڑ ہے آنچل سے گلستاں میں صبا کی 
ان سے رخ روشن کو چھپایا نہیں جاتا 
حیرت ہے کہ مۓ خانے میں جاتا نہیں زاہد 
جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا 
اب موت ہی لے جائے تو لے جائے یہاں سے 
کوچے سے تِرے ہم سے تو جایا نہیں جاتا 
اس درجہ پشیماں مِرا قاتل ہے کہ اس سے 
محشر میں مِرے سامنے آیا نہیں جاتا 
پرنمؔ غمِ الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ 
اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا

پرنم الہ آبادی

No comments:

Post a Comment