دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا
یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا
کمسن ہیں وہ ایسے انہیں ظالم کہوں کیسے
معصوم پہ الزام لگایا نہیں جاتا
آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رُخ نے
کیا چھیڑ ہے آنچل سے گلستاں میں صبا کی
ان سے رخ روشن کو چھپایا نہیں جاتا
حیرت ہے کہ مۓ خانے میں جاتا نہیں زاہد
جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا
اب موت ہی لے جائے تو لے جائے یہاں سے
کوچے سے تِرے ہم سے تو جایا نہیں جاتا
اس درجہ پشیماں مِرا قاتل ہے کہ اس سے
محشر میں مِرے سامنے آیا نہیں جاتا
پرنمؔ غمِ الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ
اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا
پرنم الہ آبادی
No comments:
Post a Comment