Saturday 9 September 2017

مست ہیں ہم خراب حالی میں

مست ہیں ہم خراب حالی میں
خوش ہیں رندان لا ابالی میں
رشکِ یوسفؑ ہیں خوش جمالی میں
شہرہ ان کا ہے بے مثالی میں
ٹھوکریں ان کی کھائے جا اے دل
سرفرازی ہے پائمالی میں
اپنی کشتِ عمل ہے کیا سر سبز
لاکھ دانے ہیں ایک بالی میں
کیوں نہ بے فیض ہوں یہ زاہدِ خشک
خاک اڑتی ہے خشک سالی میں
سجدے کرنے سے بھی نہیں ملتی
بار اس بارگاہِ عالی میں
لاکھ کیفیتیں بھری ہیں یہاں
تیرے مستوں کے جامِ خالی میں
شوخیاں تجھ سے بڑھ کے پاتے ہیں
ہم تِرے شاہدِ خیالی میں
سب ہمارے گِلے تمام ہوئے
شبِ وصل ان کی ایک گالی میں
کھینچ سکتا ہے کون اس کی شبیہ
فرد ہے یار بے مثالی میں
پرِ بلبل جو کاٹتا صیاد
خوب کٹتی فراغ بالی میں
یا رب اس سے عدو ہے ہم بستر
ڈال دے جان شیرِ قالی میں
مدعئ کمال سب ہیں جلال
ہم کو دعویٰ ہے بے کمالی میں

جلال لکھنوی

No comments:

Post a Comment