Sunday 24 September 2017

اور کیا میرے لئے عرصہ محشر ہو گا

اور کیا میرے لیے عرصۂ محشر ہو گا 
میں شجر ہوں گا تِرے ہاتھ میں پتھر ہو گا 
یوں بھی گزریں گی تِرے ہجر میں راتیں میری 
چاند بھی جیسے مِرے سینے میں خنجر ہو گا 
زندگی کیا ہے، کئی بار یہ سوچا میں نے 
خواب سے پہلے کسی خواب کا منظر ہو گا 
ہاتھ پھیلائے ہوئے شام جہاں آئے گی 
بند ہوتا ہوا دروازۂ خاور ہو گا 
میں کسی پاس کے صحرا میں بکھر جاؤں گا 
تُو کسی دور کے ساحل کا سمندر ہو گا 
وہ مِرا شہر نہیں شہرِ خموشاں کی طرح 
جس میں ہر شخص کا مرنا ہی مقدر ہو گا 
کون ڈوبے گا کسے پار اترنا ہے ظفرؔ 
فیصلہ وقت کے دریا میں اتر کر ہو گا 

احمد ظفر

No comments:

Post a Comment