Monday 25 September 2017

لب سکوت پہ اک حرف بے نوا بھی نہیں

لبِ سکوت پہ اک حرفِ بے نوا بھی نہیں 
وہ رات ہے کہ کسی کو سر دعا بھی نہیں 
خموش رہیۓ تو کیا کیا صدائیں آتی ہیں 
پکاریۓ تو کوئی مڑ کے دیکھتا بھی نہیں 
جو دیکھیۓ تو جلو میں ہیں مہر و ماہ و نجوم 
جو سوچیۓ تو سفر کی یہ ابتدا بھی نہیں 
قدم ہزار جہت آشنا سہی،۔ لیکن 
گزر گیا ہوں جدھر سے وہ راستا بھی نہیں 
کسی کے تم ہو، کسی کا خدا ہے دنیا میں 
مرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں 
یہ کیسا خواب ہے پچھلے پہر کے سناٹو 
بکھر گیا ہے اور آنکھوں سے چھوٹتا بھی نہیں 
اس اژدہام میں کیا نام، کیا نشاں اخترؔ 
ملا وہ ہنس کے مگر مجھ سے آشنا بھی نہیں

اختر سعید خان

No comments:

Post a Comment