سفینہ جس طرح گرداب سے نکالا گیا
مجھے بھی حلقۂ احباب سے نکالا گیا
کرن کرن بھی نچوڑی گئی ہے رگ رگ سے
چراغ بھی دلِ بے تاب سے نکالا گیا
میں آ کے بیٹھ گیا ریت کی چٹائی پر
بس ایک چاند ہی باقی بچا تھا پانی میں
اسے بھی کھینچ کر تالاب سے نکالا گیا
اک اور نیند مِری نیند سے بنائی گئی
اک اور خواب مِرے خواب سے نکالا گیا
ستارے چیخ پڑے درد کی اذیت سے
ذرا سا خون کیا مہتاب سے نکالا گیا
پڑے پڑے تو میں پتھر کا ہو گیا عاطف
نجانے کیا مِرے اعصاب سے نکالا گیا
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment