Monday 4 September 2017

سفینہ جس طرح گرداب سے نکالا گیا

سفینہ جس طرح گرداب سے نکالا گیا 
مجھے بھی حلقۂ احباب سے نکالا گیا
کرن کرن بھی نچوڑی گئی ہے رگ رگ سے 
چراغ بھی دلِ بے تاب سے نکالا گیا
میں آ کے بیٹھ گیا ریت کی چٹائی پر 
جب اس کے دیدۂ شاداب سے نکالا گیا
بس ایک چاند ہی باقی بچا تھا پانی میں 
اسے بھی کھینچ کر تالاب سے نکالا گیا
اک اور نیند مِری نیند سے بنائی گئی 
اک اور خواب مِرے خواب سے نکالا گیا
ستارے چیخ پڑے درد کی اذیت سے 
ذرا سا خون کیا مہتاب سے نکالا گیا
پڑے پڑے تو میں پتھر کا ہو گیا عاطف
نجانے کیا مِرے اعصاب سے نکالا گیا

عاطف کمال رانا

No comments:

Post a Comment