کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہو گا
اے میں قربان وفا وعدۂ فردا ہو گا
حشر کے روز بھی کیا خون تمنا ہو گا
سامنے آئیں گے یا آج بھی پردا ہو گا
تُو بتا دے ہمیں صدقے ترے اے شانِ کرم
ایسی لے دے ہوئی آ کر کہ الٰہی توبہ
ہم سمجھتے تھے محشر میں تماشا ہو گا
پی کے آیا عرقِ شرم جبیں پر جو کبھی
چہرے پہ بادہ کشو نور برستا ہو گا
شرمِ عصیاں سے نہیں اٹھتی ہیں پلکیں اپنی
ہم گنہ گار سے کیا حشر میں پردا ہو گا
کعبہ سنتے ہیں گھر ہے بڑے داتا کا ریاضؔ
زندگی ہے تو فقیروں کا بھی پھیرا ہو گا
ریاض خیر آبادی
No comments:
Post a Comment