Monday 18 September 2017

کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہو گا

کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہو گا
اے میں قربان وفا وعدۂ فردا ہو گا
حشر کے روز بھی کیا خون تمنا ہو گا
سامنے آئیں گے یا آج بھی پردا ہو گا
تُو بتا دے ہمیں صدقے ترے اے شانِ کرم
ہم گنہ گار ہیں کیا حشر ہمارا ہو گا
ایسی لے دے ہوئی آ کر کہ الٰہی توبہ
ہم سمجھتے تھے محشر میں تماشا ہو گا
پی کے آیا عرقِ شرم جبیں پر جو کبھی
چہرے پہ بادہ کشو نور برستا ہو گا
شرمِ عصیاں سے نہیں اٹھتی ہیں پلکیں اپنی
ہم گنہ گار سے کیا حشر میں پردا ہو گا
کعبہ سنتے ہیں گھر ہے بڑے داتا کا ریاضؔ
زندگی ہے تو فقیروں کا بھی پھیرا ہو گا

ریاض خیر آبادی

No comments:

Post a Comment